حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید ظہور حسین ملقب بہ"ظہیر الملت " سن 1282 ہجری میں سرزمین میراں پور ضلع مظفرنگر پر پیدا ہوئے۔ موصوف کے والد "سید زندہ علی" نے ان کا تاریخی نام "غلام محمد حسن" رکھا جو بعد میں "ظہور حسین" سے تبدیل گیا۔ آپ کے والد میراں پور کے زمینداروں میں شمار ہوتے تھے مگر گردش ایام نے ان کی زمینداری چھین لی۔
آپ نے قرآن، احکام اور اردو زبان کی تعلیم گھر پر حاصل کی اور ابتدائی تعلیم سرکاری اسکول میں جید اساتذہ سے حاصل کی۔ سن 1878 عیسوی میں مولانا شیخ جعفر حسن بدایونی نے میراں پور میں حوزہ علمیہ قائم کیا تو موصوف نے اس حوزہ میں علم صرف، نحو، منطق، فلسفہ، ادب، فقہ اور اصول کی تعلیم مولانا شیخ سجاد علی، مولانا سید علی نقی شاہ اور مولانا خواجہ غلام حسنین وغیرہ سے حاصل کی۔
سن 1302 ہجری میں وہاں سے فراغت کے بعد عازم لکھنؤ ہوئے ، وہاں رہ کرمولانا علی نقی، مولانا سید علی، مولانا سید محمد تقی اورملاذالعلماء مولانا سید ابوالحسن وغیرہ سے کسب فیض کرکے درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ ظہیرالملت کو ملاذالعلماء سے خاص تلمذحاصل تھا ۔ ملاذالعلماء آپ کو اپنا بیٹا اور علم و فضل کے میدان میں اپنا جانشین شمار کرتے تھے۔ استاد کی رحلت کے بعد لکھنؤ کے علمی حلقوں نےآپ کو معقولات میں ملاذالعلماء کا صحیح جانشین تسلیم کرلیا۔
آپ فارغ التحصیل ہونے کے بعد لکھنؤ میں راجہ محمود آباد کے مدرسہ کے علاوہ اپنے گھر پر تدریس کی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہوگئے مگر ادارہ تصنیف و تالیف حیدرآباد کی طرف سے لکھنؤ چھوڑنے کا اصرار بڑھنے لگا تو آپ مجبور ہوکر عازم حیدر آباد ہوئے اور وہاں تصنیف و تالیف میں مشغول ہوگئے۔
آپ جیسی شخصیت کا لکھنؤ ترک کرنا راجہ محمود آباد کے دل پر شاق گذرا لہذا راجہ نے اصرار کے بعد لکھنؤ دوبارہ بلا لیا اور آپ پھر سے لکھنؤ کی سر زمین پر تدریس میں مصروف ہوگئےاورسینکڑوں شاگردوں کو زیور علم و ادب سے آراستہ کرتے رہے۔ سن 1329 ہجری میں نجم الملت آیت اللہ نجم الحسن زیارت کے لئے عراق تشریف لے گئے تو مدرسہ ناظمیہ کی صدارت آپ کے سپرد کر گئے، موصوف نے اس ذمہ داری کو بہت اچھی طرح نبھایا۔
ظہیرالملت کی ذات سے بے شمار علماء و فضلاء نے کسب فیض کیا ان میں سے: ڈاکٹر جعفر حسین فدوی، سید محمد محسن پروفیسر لکھنؤ یونیورسٹی، مولانا ذوالفقار حسنین، مولانا یوسف حسین، مولانا حافظ کفایت حسین اور مولانا سید محمد عارف و غیرہ کے اسمائے گرامی سرفہرست ہیں۔
سنہ 1332 ہجری میں رامپور کے نواب "حامد علی خان" نے ریاست رامپور میں طلب کیا اور شعبہ تصنیف و تالیف آپ کی زیرنگرانی قراردیا؛ اس وقت نجم الملت شعبہ تعلیم کے مدیر تھے۔ جب آیت اللہ نجم الحسن نے رامپور ترک کیا تو شعبہ تعلیم کی تمام ذمہ داریاں ظہیر الملت کے کاندھوپر آگئی۔ سنہ 1340 ہجری میں شیعہ عربی کالج لکھنؤ موصوف کی سرپرستی میں قائم ہوا اور آپ ہی اس کے پرنسپل رہے۔
شعبہ تالیف و تصنیف شیعہ کانفرنس کے بھی رکن رہے۔ شعر و ادب اورفلسفہ و منطق آپ کے خصوصی فنون تھے۔آپ کو عربی قصائد میں بھی شہرت حاصل تھی۔
موصوف کی تالیفات میں سے: تقریر حاسم در نفی عروسی قاسم، التوحید، العدل، النبوۃ، الشافی، حاشیہ بر نہج البلاغہ اور مسائل جعفریہ وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
آخر کار یہ علم و ادب کا ماہتاب بتاریخ یکم ذیقعدہ سن 1357 ہجری میں سر زمین لکھنؤ پر غروب ہوگیا؛ چاہنے والوں کا مجمع آپ کے شریعت کدہ پر جمع ہو گیا، دریائے گومتی پرغسل و کفن دیا گیا؛ علماء، طلاب اور رؤسا و امراءکے اجتماع میں آپ کے جنازہ کو کربلائے معلیٰ کے لئے بطورِامانت رکھا گیا، چنانچہ سال بھر سے زیادہ امانت کےطور پر رہنے کے بعد موصوف کا جنازہ بتاریخ 4 شوال سن 1358ہجری میں مقبرہ راجہ پیرپور سے کربلائے معلی لے جایا گیا اور حرم حسینی میں سپرد خاک کردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج5، ص171، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی2020ء۔
ویڈیو دیکھیں: